بیساکھی ڈھونڈنے والے


 بیساکھی ڈھونڈنے والے

(قاسم علی شاہ )

خاتون کچن میں مصروف تھی، پاس ہی اس کی بچی بھی بیٹھی ہوئی تھی ۔وہ کافی دیر سے الجھن بھری نظروں سے سامنے دیکھ رہی تھی جیسے کسی چیز کو سمجھنے کی کوشش کررہی ہو۔ماں نے اس کودیکھا تو وہ کچھ متفکر ہوگئی ۔اس نے بیٹی کواپنی طرف متوجہ کیا اورسامنے لگے کیلنڈ ر کے ہندسوں کے بارے میں پوچھا ، بچی کافی دیر وہاں دیکھتی رہی لیکن پھر اس نے بے بسی سے سرہلادیا۔ماں اس کو ایک آئی اسپیشلسٹ کے پاس لے گئی۔چیک اپ کے بعد معلوم ہوا کہ بچیStargardtنامی بیماری میں مبتلا ہوچکی ہے ۔ یہ وہ بیماری ہے جس میں انسان کی نظر انتہائی کمزور ہوجاتی ہے۔ اس کوچیزوں کے صرف ہیولے ہی نظر آتے ہیںاوروہ رفتہ رفتہ اندھاپن کے قریب ہوتاجاتاہے۔’’لیکن میں اندھی نہیں ہوں۔‘‘ بچی زور سے چلائی اور اس احتجاج نے اس کی ماں اور ڈاکٹر دونوں کو چونکاکررکھ دیا۔اس بچی کا نام ’’ماریارونیان‘‘ تھااوراگلے کچھ سالوں میں دنیا نے عجیب نظارے دیکھے۔اسکول کے زمانے سے ہی وہ کھیل کود اور خاص طورپردوڑ کے مقابلوں میں انتہائی دلچسپی رکھتی تھی۔چنانچہ اس نے 1992ء میں منعقدہ ’’سمر پیرااولمپکس‘‘ کے ریس مقابلوں میں حصہ لیا اور آنکھوں کی روشنی نہ ہونے کے باوجود بھی چار گولڈ میڈل جیتے۔چار سال بعد 1996ء کے ’’پیرااولمپکس اٹلانٹا‘‘میں اس نے ایک گولڈ میڈل اور ایک سلور میڈل جیتا۔2002ء میں ’’نیویارک میراتھن‘‘ میں اس نے دوگھنٹے ، 27منٹ اور 10سیکنڈزدوڑ کرپہلی پوزیشن حاصل کی۔وہ 500میٹر کی ریس میں تین بار نیشنل چیمپئن رہی ، اس کے ساتھ کئی بین الاقوامی اعزازت بھی اپنے نا م کیے لیکن دنیا بھر میں اس کا نام تب مشہور ہوا جب 2000ء کے’’ سڈنی اولمپکس‘‘ میں اس نے آٹھویں پوزیشن حاصل کی اور اولمپک میں شریک ہونے والی دنیا کی ’’پہلی نابیناخاتون کھلاڑی‘‘ کا اعزاز حاصل کیا۔بصارت سے محروم اور زندگی کی مشقتیں جھیل کرکئی بین الاقوامی اعزازات اپنے نام کرنے والی اس پُرعزم لڑکی کا زندگی کے بارے میں نظریہ بہت ہی منفر د ہے۔وہ کہتی ہے کہ زندگی میں کوئی Finish Lineنہیں ہوتی ۔یہ ایک لمبا سفر ہے جس میں آپ نے بس چلتے جانا ہے ۔وہ یہ بھی کہتی ہے کہ انسان کی بصارت نہیں بلکہ اس کامنفی رویہ اس کو اندھا بنادیتاہے۔


ماریا رونیان کے لیے بہت آسان تھا کہ وہ اپنے اندھے پن کو تقدیر کا لکھا سمجھ کر بیٹھ جاتی اورساری عمرہمدردیاں سمیٹتی لیکن اس نے ہمت سے کام لیا اور اپنی محرومی کو طاقت میں بدل کرایسے عزم و حوصلے کا مظاہرہ کیا کہ اپنی ایک تاریخ رقم کرڈالی۔


ایک بڑی معذوری کے باوجود احساس کمتری میں مبتلا نہ ہونااور اپنی کارکردگی کی بدولت اچھے بھلے لوگوں سے بھی آگے نکل جانابلاشبہ بڑے دل گردے کا کام ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتاہے کہ ہمارے معاشرے میں اپنے دم پر جینے کی ایسی مثالیں نہ ہونے کے برابر ہیں جو اپنی محرومیوں ،کمزوریوں اور خامیوں کو قبول کرتے ہیں اور دوسروں کامحتاج بننے کے بجائے اپنے زور بازو سے زندگی کا رُخ تبدیل کرتے ہیں۔ہمارے ہاں یہ رویہ بہت عام ہے جس میں ایک انسان اپنے دکھڑے سناکر دوسروں کی ہمدردیاں حاصل کرنا چاہتاہے۔یہاں اوپر والا ہاتھ بننے کے بجائے نیچے والا ہاتھ بننے کو زیادہ ترجیح دی جاتی ہے کیوں کہ اس میں محنت نہیں کرنی پڑتی اور بیٹھے بٹھائے سب کچھ مل جاتاہے۔یہی وجہ ہے کہ یہاں آپ کو ہر تیسرا شخص روتا ہوااور خودترسی کا شکار ملے گاجس کی کوشش ہوتی ہے کہ لوگ مجھے مظلوم ، بے بس اور لاچار سمجھیں اور کہیں :’’اوہ ، آپ کے ساتھ تو بڑی زیادتی ہوئی ہے۔‘‘ یادرکھیں کہ دنیا کا سب سے بڑا نشہ اپنی محرومیوں کی داستان سناتے رہنا ہے۔یہ ایسی لت ہے کہ اگر ایک بار انسان کو لگ جائے تو پھر بڑی مشکل سے چھوٹتی ہے۔اس عادت کی وجہ سے انسان کا نقصان ہورہا ہوتاہے لیکن اس کی آنکھوں پر ایسی پٹی بندھی ہوتی ہے کہ اس کو یہ چیز محسوس ہی نہیں ہوتی ۔اس رویے کی وجہ سے وہ نہ صرف اپنے خاندان پر بلکہ پورے معاشرے پر بوجھ بن جاتاہے۔


خودترسی(Self-pity) کا شکار شخص دراصل بہت زیادہ حساسیت والا انسان ہوتاہے۔حساسیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان جو دیکھتاہے اور سنتاہے اس کوشدید انداز میں محسوس کرتاہے ۔حساسیت کے دوپہلو ہیں ۔ایک منفی اور ایک مثبت ۔مثبت پہلو تو یہ ہے کہ حساسیت کی بدولت ہی انسانیت کا رشتہ قائم ہے۔یہ انسان کی کارکردگی کے لیے بھی بہت ضروری ہے ۔آپ اگر تاریخ اٹھاکر دیکھیں تو دنیا کے عظیم لکھاری اور شعرا سب کے سب حساسیت سے بھرے ہوتے تھے۔جتنے بھی بڑے لکھاری گزرے ہیں وہ سب انتہائی حساس تھے اور اسی خوبی کی بدولت ان کی تحریروں میں جان پڑتی تھی اور پوری دنیا ان کی گرویدہ تھی۔آپ اگر دنیا کے کسی بڑے مصور اورفنکار کو دیکھیں تووہ احساس کے جذبے سے لبریز ہوکرہی ایک شہ پارہ بناتاہے اور پھر وہ شاہکار بن جاتاہے۔اسی حساسیت کا ہی نتیجہ تھا کہ ایک شخص کپڑوں کے تھان کندھے پر رکھ کربیچنے کے لیے نکلتاہے۔راستے میں دیکھتاہے کہ دوآدمی لڑرہے ہیں۔ان میں سے ایک نے چھری نکالی اوردوسرے کے پیٹ میں گھونپ دی۔زخمی شخص زمین پر گرکرتڑپنے لگااوراس کے زخم سے خون کے فوارے چھوٹنے لگے ۔آس پاس کئی سارے لوگ کھڑے تھے لیکن کوئی بھی مدد کرنے کے لیے آگے نہیں بڑھ رہا تھا۔اس نے اپنے تھان پھینکے، زخمی شخص کواٹھایااورکندھے پر لادکر دوڑتے دوڑتے ہسپتال پہنچایا۔بروقت علاج کی وجہ سے زخمی شخص کی جان بچ گئی لیکن اس واقعے نے کپڑے بیچنے والے شخص کے دل و دماغ پر گہرا اثرچھوڑا۔اس نے اپنا پیشہ ترک کیا اور گلیوں میں گھوم پھرکر چندہ جمع کرناشروع کیا۔تھوڑے ہی عرصے بعد وہ ایک ڈسپنسری بنانے میں کامیاب ہوگیا۔پھر ایمبولینس بھی خرید لی اور کچھ ہی عرصے میں اس نے ایسی فائونڈیشن کی بنیاد رکھی جونہ صرف پاکستان میں بلکہ ملک سے باہر بھی لوگوں کی خدمت میں پیش پیش تھی اور اب بھی ہے۔کپڑے بیچنے والایہ شخص عبدالستار ایدھی تھا اور جب وہ فوت ہواتو اکیس توپوں کی سلامی کے ساتھ اس کو دفن کیا گیا۔احساس کے جذبے نے اس کو عام سے خاص انسان بنادیاتھا۔


حساسیت کا منفی پہلو یہ ہے کہ ایسے شخص کے ساتھ جب کوئی برا واقعہ پیش آتاہے تو وہ اس کاا ثربڑے گہرے انداز میں محسوس کرلیتا ہے۔وہ اس واقعے کے مثبت پہلوکے بجائے منفی پہلو کو دیکھتاہے ۔یہاں پر شیطانی ذہن کام کرنا شروع کرتاہے اور اس کو یہ واقعہ بڑھا چڑھاکر دکھاتاہے۔اس کی آنکھوں پر پردہ پڑ جاتاہے اوراس کی زندگی میں رونما ہونے والے تمام مثبت اور اچھے کام اس کی نظروں سے روپوش ہوجاتے ہیں۔اس کے ذہن میں یہ بات ہوتی ہے کہ میرے پاس ایسا کچھ بھی نہیں جس کاشکراداکیاجاسکے۔وہ سمجھتاہے کہ’’ میں دنیا کاسب سے بدقسمت انسان ہوں ، کیوں کہ صرف میرے ساتھ ہی برا ہورہاہے۔لوگوں کومعلوم ہی نہیں کہ مجھے کتنے برے حالات کاسامنا ہے۔انھیں پتا ہی نہیں کہ میں کس قد ربیمار ہوں۔انھیں احساس ہی نہیں کہ میراتو والد بھی فوت ہوچکا ہے۔‘‘اس کی یہ سوچ اس کومجبور کرتی ہے کہ لوگوں کو اپنے دکھڑے سناناشروع کردے ۔وہ ایسا ہی کرتاہے اور اس عادت میں اس کو عجیب لطف ملنے لگتاہے۔وہ جس سے بھی ملتاہے روتاہی ملتاہے ۔و ہ  لوگوں کی نظروں میں خود کو مظلوم بنانے کی کوشش کرتاہے۔اس عادت سے وہ ان کی توجہ بھی حاصل کرنا چاہتاہے۔وہ لوگوں کے منہ سے اپنے لیے یہ جواز بھی کہلوانا چاہ رہاہوتاہے کہ ہاں بھائی! تم بالکل حق پرہو۔اس رویے سے دراصل وہ اپنی ذمہ داریوں اورنالائقیوں سے فرارحاصل کرنا چاہتاہے۔وہ ذاتی ذمہ داری قبول ہی نہیں کرنا چاہتا،اس کو بس ایک بیساکھی کی تلاش ہوتی ہے جس کے سہارے وہ اپنے آپ کوکھڑارکھ سکے۔یہی وجہ ہے کہ جب وہ اپنی فریاد سنارہاہواور سننے والااس کو کہے کہ بھائی ! آپ کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ آپ یہ یہ کام کریں تو یہ جملہ سن کر ہی وہ بدک جاتاہے اور کہتاہے:’’نہیں آپ مجھے سمجھ ہی نہیں رہے۔‘‘خودترسی والے رویے سے وہ معاشرے کو یہ پیغام بھی دے رہاہوتاہے کہ مجھ سے کسی چیز کی توقع نہ رکھی جائے۔


خودترسی دراصل حسد کی ایک صورت بھی ہے۔ایسا شخص خدا کی تقسیم پر راضی نہیں ہوتا۔وہ ہروقت اسی سوچ میں رہتاہے کہ مجھے وہ چیزنہیں ملی جس کا میں مستحق تھا اور فلاں کو مل گئی۔اس پر شیطانی سوچ حاوی ہوجاتی ہے جو اس کومظلوم اور دوسروں کو ظالم بناکر پیش کرتی ہے۔ایسے لوگ انا میں مبتلا ہوتے ہیں۔انسان جب اناپرست بن جاتاہے توپھر اس کی دوصورتیں ہوتی ہیں۔یہ اناکبھی احساس برتری کی صورت میں ظاہرہوتی ہے جس سے وہ متکبر بن جاتاہے اور کبھی احساس کمتری کی صورت میں ، جس کی وجہ سے وہ خودترسی کاشکارہوجاتاہے۔


آپ نے بھکاری کامشاہدہ کیا ہوگا۔ایک پیشہ ور بھکاری جب آپ کے سامنے ہاتھ پھیلاتاہے تو وہ اپنی باڈی لینگویج ،اپنے الفاظ اور چہرے کے تاثرات سے خود کو اس قدر قابل رحم اور قابل ترس بناکر پیش کرتاہے کہ انسان اس کو دوچار پیسے دے ہی دیتاہے۔یہی حال خودترسی کے شکار شخص کا بھی ہے۔وہ بھی اپنے حالات کارونا روکر آپ سے ہمدردی کی بھیک مانگ رہا ہوتاہے لیکن اس کو معلوم نہیں ہوتاکہ اس عادت کی وجہ سے وہ اپنی قدر ومنزلت کھوبیٹھتاہے۔انسانوں کی نظروں میں اس کی عزت کم ہوجاتی ہے۔جب لوگوں کو معلوم ہوجاتاہے کہ یہ بندہ تو ہر وقت روتاہی رہتاہے تو وہ بھی پھر اس سے بچنے اورجان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔


خود ترسی کاایک بڑا نقصان یہ ہوتاہے کہ اس سے انسان کی کارکردگی بالکل ہی زیروہوجاتی ہے۔کیوں کہ جب وہ یہ سوچ رکھتاہے کہ میرے ساتھ ہی ظلم کیوں ہورہا ہے تو پھر وہ اپنے کام اور اپنی ذمہ داریوں میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا اور اسی وجہ سے اس کی پروڈکٹیوٹی ختم ہوجاتی ہے۔

خودترس انسان زندگی میں ترقی نہیں کرسکتا ۔کیوں کہ ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے لیے خودتوقیری کا ہونا اور اپنی ذات میں معتبر ہونا بہت ضروری ہے۔جبکہ خودترس انسان اس خوبی سے محروم ہوتاہے۔جوانسان اپنے آپ کو نہیں مانتاتودنیاکیسے اس کومانے گی؟

خودترس انسان خود کو بہتر کرنے کے لیے قدم نہیں اٹھاتا کیوں کہ یہ پورے معاشرے سے گلہ مند ہوتاہے اور یہ چیزاسے خود کو بہتر بنانے کی طرف متوجہ ہی نہیں کرتی۔

خودترس انسان مالی ترقی بھی نہیں پاسکتا۔کیوں کہ اگر وہ مالدار ہوجائے توپھر اپنی مظلومیت اور لاچارگی کی داستان کیسے سنائے گا۔

ایسے لوگوں کے تعلقات بھی کمزور ہوجاتے ہیں کیوں کہ ان کے پاس بیٹھنے والے انسان کی امید بھی ان کی باتوں کی وجہ سے ختم ہوجاتی ہے ۔وہ بھی خود کو مایوس محسوس کرتاہے اور اسی وجہ سے لوگ ان سے دوررہنے کی کوشش کرتے ہیں۔

  خودترس انسان کی زندگی میں مسائل کا انبار ہوتاہے۔کیوں کہ وہ ناشکرا ہوتاہے اور ناشکرے شخص کے پاس موجود نعمتیں بھی ایک ایک کرکے ختم ہوتی جاتی ہیں۔

  خودترسی ختم کرنے کے لیے پہلا قدم یہ ہے کہ ایسا شخص سب سے پہلے اپنی سوچ بدلے۔جن منفی چیزوں کو سوچ کر اس نے اپنی زندگی کو بدتر بنایاہواہے اس کی جگہ مثبت چیزوں کو دیکھیں۔وہ اس حقیقت کوتسلیم کریں کہ زندگی میں 100فی صد برا نہیں ہورہا ہوتا۔منفیت کی مقدار 20فی صد ہوتی ہے۔باقی 80فی صد چیزیں اچھی ہورہی ہوتی ہیں لیکن انسان کا نفس بار بار اس کے سامنے وہی 20فی صد منفی چیزیں لاتاہے جس سے وہ سمجھتاہے کہ میری زندگی میں تو اچھی چیز ہے ہی نہیں ۔


دوسراقدم یہ ہے کہ وہ اپنی زندگی کے واقعات کو معانی دے۔ وہ سوچے کہ یہ واقعہ میرے ساتھ ہی کیوں ہوا۔اگر وہ کوئی منفی چیز بھی تھی تو اس میں مثبت چیز ضرورہوگی۔انسان کی زندگی میں تلخ واقعات کاہونا ضروری ہوتاہے تاکہ اس کو عقل آئے۔انسان کی محرومیاں اس کے لیے نعمتیں ہیں کیوں کہ ان ہی کی وجہ سے وہ حرکت میں آتاہے او ر ان محرومیوں کو ختم کرنے کی کوشش کرتاہے۔واقعات کو مثبت معانی دینا انسان کو پُرامید بناتاہے اور اس کو مایوسی سے بچاتاہے ۔


تیسرا قدم شکرگزاری ہے۔وہ سوچے کہ آج سے پانچ سال پہلے میں جس حالت میں تھا ، آج اس سے کس قدر بہتر ہواہوں۔اس کے پاس جو بھی نعمتیں موجودہیں ان پر شکرادا کرے ۔اس عمل سے اس کی نعمتیں بڑھنا شروع ہوجائیں گی۔


اگر اس کے ساتھ کوئی منفی واقعہ پیش آتاہے تو وہ اس کے بارے میں یہ نہ سوچے کہ یہ میرے ساتھ ہی کیوں پیش آیا، بلکہ اس کو زندگی کا حصہ سمجھے اور خود سے یہ سوال پوچھے کہ میں اس کائنات میں کیوں ہوں، میری زندگی کامقصد کیا ہے؟ جب انسان کی نظر اپنے مقصدحیات پر ہوگی توپھر چھوٹے چھوٹے واقعات اس کو مایوس نہیں کریں گے اور نہ ہی وہ خودترسی کا شکار ہوگا۔

Comments