اپنی اپنی حد میں رہیۓ


 اپنی اپنی حد میں رہیے

(قاسم علی شاہ)

چند دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک دلچسپ واقعہ نظروں سے گزرا، جس میں ایک بہترین سبق پوشیدہ ہے۔

کسی محفل میں موجو د ایک صاحب قہوے پر قہوہ پیے جارہے تھے۔ ایک کپ ختم ہوتا، وہ تھوڑا سا وقفہ لیتے اور پاس پڑے تھرماس سے ایک اور کپ بھرکر اس سے لطف اندوز ہونا شروع ہوجاتے۔ایک اور بندہ بڑی دیر سے انھیں نوٹ کررہا تھا، وہ اپنی بے چینی کو مزید برقرار رنہ رکھ سکا اور قہوہ پینے والے سے پوچھ بیٹھا۔’’جناب ! آپ اتنا زیادہ قہوہ کیوں پی رہے ہیں؟‘‘قہوہ پینے والے  نے ایک نظر اس کو دیکھا اور پھر بولا:’’آپ کو معلوم ہے کہ میرے والد صاحب کی عمر 105 سال ہے اور وہ ابھی تک صحت مند ہیں؟‘‘ تو کیا وہ بھی زیادہ قہوہ پیتے ہیں؟ سوال کرنے والے  نے ایک اور سوال داغ دیا۔’’نہیں ! وہ دوسروں کے معاملات میں ٹانگ نہیں اڑاتے۔‘‘


میں اپنے معاشرے کو اس لحاظ سے خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ یہاں ہمدردی اور ایثار کی ایک مضبوط فضا قائم ہے۔ اگر کسی فرد پر کوئی مصیبت آتی ہے تو اس کا پورا خاندان اخلاقی اور مالی طورپر اس کی مدد کرنے کے لیے پہنچ جاتا ہے، اس کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے اور اس کو تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیتا مگر اس جذبہ ہمدردی میں ایک مقام پر آکر ہم تھوڑے سے بھٹک گئے۔دوسروں کے ساتھ غم گساری کے احساسات جتاتے جتاتے ہم نے ان کے ایسے معاملات میں بھی دخل دینا شروع کردیا جو کہ خالصتاً ذاتی نوعیت کے تھے اور اس بے جا دخل اندازی سے اس انسان کو تکلیف ہونے لگی۔ جی ہاں! میں ذاتی حدود (Personal Space) کی بات کررہا ہوں، بدقسمتی سے جس کا ہمارے معاشرے میں بری طرح استحصال کیا جاتا ہے۔


ہم میں سے ہر شخص کے پاس کچھ نہ کچھ آسائشات موجود ہیں، جیسے کہ گاڑی، بائیک، سمارٹ فون، لیپ ٹاپ اور جیب میں کچھ نہ کچھ رقم، ان سب چیزوں کو ہم اپنی ملکیت سمجھتے ہیں اور اس پر خوش بھی ہوتے ہیں لیکن سمجھتا ہوں کہ ان تمام چیزوں کے علاوہ بھی ایک چیز ہے جو انسان کی ملکیت ہے اور ان سب سے بڑھ کر ہے۔ یہ اس کی ’’پرسنل اسپیس‘‘ ہے جس پر وہ مکمل حق  ۔


’سی سلیا ایہرن‘ ایک مقبول ترین آئرش ناول نگار ہیں۔ ان کے ناول دنیا بھر میں 25 ملین سے زیادہ کی تعداد میں چھپ چکے ہیں۔ وہ اپنے پرسنل اسپیس کے بارے میں کہتی ہیں کہ میرے بوکس بیڈروم میں صرف ایک بستر اور ایک الماری سما سکتی ہے لیکن یہ میری پوری کائنات ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں میں سوچتی ہوں، خواب دیکھتی ہوں، روتی ہوں، ہنستی ہوں اور انتظار کرتی ہوں۔


ہر انسان جب پیدا ہوکر اس دنیا میں آتا ہے تو وہ اپنی ایک شناخت لے کر آتاہے ۔یہ شناخت دراصل اس کی ’’پرسنل اسپیس‘‘ ہے۔یہ وہ ریاست ہے جس میں وہ صرف اپنی حکمرانی چاہتا ہے ۔یہ وہ مقام ہے جہاں وہ کسی اور شخص کی دخل اندازی برداشت نہیں کرسکتا۔ہر انسان کوروزمرہ زندگی کے ہر کام میں پرسنل اسپیس کی ضرورت ہوتی ہے اورکسی انسان کی یہ ضرورت اگر پوری نہ ہورہی ہوتواس کے پاس کتنی ہی آسائشات اور پرتعیش زندگی کیوں نہ ہو ، اس سب کے باوجود بھی وہ بے چینی اور بے سکونی کاشکار ہوگا۔


’’رابرٹ فراسٹ‘‘ اپنے وقت کا ایک مقبول ترین شاعر گزرا ہے۔اس کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ اپنی شاعری میں زندگی کو بہت خوب صورت انداز میں پیش کرتا تھا۔اس کا ایک جملہ مجھے بہت پسند ہے ۔وہ کہتاہے :’’اچھی باڑ، اچھے پڑوسی پیدا کرتی ہے۔‘‘


آپ اگر لندن گئے ہوں تو آپ نے دیکھا ہوگا کہ وہاں دوگھروں کے درمیان اونچی دیوار نہیں ہوتی بلکہ پودوں سے بنی ایک باڑ ہوتی ہے جو اس بات کا تعین کرتی ہے کہ اس سے آگے دوسرے فرد کا مکان شروع ہورہا ہے۔اب اگر اس باڑ کی باقاعدگی کے ساتھ تراش خراش ہوتی ہے اور اس کو دلکش بنایا جاتاہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دونوں جانب رہنے والے لوگ نفیس ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس کا ایک مطلب اور بھی ہے کہ دونوں پڑوسیوں نے اپنی حدود کو مضبوطی سے متعین کیاہوا ہے۔ان کو معلوم ہے کہ ایک حد سے آگے ان کا کوئی کنٹرو ل نہیں بلکہ وہ پڑوسی کادائرہ اختیار ہے اور اسی وجہ سے دونوں کے درمیان کوئی تنازعہ کھڑا نہیں ہوتا، کوئی لڑائی نہیں ہوتی اور نہ ہی دلوں میں کوئی رنجش پیدا ہوتی ہے۔


لیکن اس کے برعکس اگر دوگھروں کے درمیان باڑ نہ لگی ہو، یا وہ خستہ حالت میں ہو تو عین ممکن ہے کہ ایک شخص اپنی حدود سے تجاوز کرجائے اور دوسرے کی حدودمیں اپنا سامان رکھ دے جس سے’’ توتو میں میں‘‘ ہوسکتی ہے اور یہ چیز بڑے جھگڑے کا سبب بھی بن سکتی ہے،جس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے لیے نفر ت پیداہوجائے گی اورپڑوسی ہوتے ہوئے بھی وہ ایک دوسرے سے خوف محسوس کریں گے۔


یہی مثال ذاتی حدود کی بھی ہے۔آپ نے جس قدرمضبوطی کے ساتھ اپنی حدود متعین کی ہوں اسی قدر آ پ کی زندگی بھی پرسکون ہوگی۔آپ آج ہی عدالت میں جاکر جائزہ لیجیے ، آپ کو تمام کیسز کی بنیادی وجہ یہی ملے گی کہ لوگوں نے اپنی حدود متعین نہیں کی ہوتی اور دوسرا بندہ ان حدود میں گھس آتاہے ۔جس سے پہلے پہل تو زبانی کلامی جھگڑا ہوتاہے اور کچھ دیر بعدنوبت ہاتھاپائی تک پہنچ جاتی ہے۔ذاتی حدود کو مضبوط نہ رکھنے سے لوگ آپ کے ایسے معاملات میں بھی دخل اندازی کریں گے جن کا تعلق صرف آپ کی ذات سے ہے۔آپ بس میں بیٹھ کر سفرکررہے ہوںگے اور پاس بیٹھنے والاشخص آپ سے پوچھے گا،’’کتنے بچے ہیں آپ کے ؟مہینے کا کتنا کمالیتے ہیں آپ ؟‘‘ آپ فون پر اپنے والدصاحب سے بات کررہے ہوں گے اور ساتھ بیٹھا شخص کہے گا، میراسلام بھی دینا او ر آپ دل ہی دل میں اس کو کوس رہے ہوںگے کہ میرے والد سے تیرا کیا تعلق ؟خواہ مخواہ رشتہ داری بڑھارہا ہے۔


انسان کی’’ ذاتی حدود‘‘دوطرح کی ہوتی ہیں۔فزیکل (جسمانی) اور ایموشنل (جذباتی)

’’فزیکل بائونڈری‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ کون سا شخص کس حد تک آپ کے پاس آسکتا ہے۔یادرکھیں کہ آپ کے جسم کے اردگرد 1.5 میٹرتک آپ کا’پرسنل اسپیس‘ ہے جس میں آپ کی اجازت کے بغیر کوئی بھی شخص نہیں آسکتا۔یہ آپ کاحق ہے کہ آپ اپنی فزیکل بائونڈری میں کسی کو بھی آنے سے روکیں۔بعض دفعہ کسی راہ جاتے شخص سے آپ کاواسطہ پڑا ہوگا جو سلام کرنے کے لیے زبردستی آپ کے گلے لگ جاتاہے(مرد، مردوں سے)۔حالانکہ اس شخص سے ہماراتعلق اتناگہرا نہیں ہوتا، ہم اس سے صرف مصافحہ کرنا چاہتے ہیں لیکن وہ ہماری ’’فزیکل باونڈری‘‘ کو کراس کردیتاہے جس سے ہمیں بڑی کوفت ہوتی ہے۔اس لیے بہتر یہی ہے کہ آپ پہلے سے ہی ایسے شخص کی طرف ہاتھ بڑھالیں اور نرمی کے ساتھ اپنے درمیان فاصلے کو برقرار رکھیں۔


’’ایموشنل بائونڈری‘‘ وہ ہوتی ہے جس میں آپ اپنے جذبات و احساسات کو محفوظ رکھنا چاہتے ہیں۔کیوں کہ جذبات انسان کی ایک انتہائی ذاتی چیزہوتی ہے۔یہ دل کی باتیں ہیں جو آپ کسی ایسے شخص کے ساتھ ہرگزنہیں کرنا چاہیں گے جس کو آپ اچھی طرح جانتے نہیںاور جس پر آپ کااعتماد نہیں۔’’ایموشنل بائونڈری‘‘ آپ کویہ اختیار بھی دیتی ہے کہ آپ کسی شخص کے کسی بھی رویے کو قبول کریںیا پھر مسترد۔اس لیے اگر کوئی شخص آپ کی ’’ایموشنل بائونڈری‘‘ کوکراس کرے تو آپ مروت میں آکر اس کو اپنے دل کی بات نہ بتائیں بلکہ اپنی حدود کو مضبوط بنائیں اور اس پر واضح کردیں کہ میں یہ باتیں ہر انسان کے ساتھ شیئرنہیں کرسکتا/سکتی۔


جذبات و احساسات کی طرح ’’آمدن‘‘ بھی آپ کی ایک ذاتی نوعیت کی چیز ہے، اس کو’’فائنانشل بائونڈری‘‘ کہاجاتاہے۔ہمارے معاشرے میں آمدن کے بارے میں سوال تقریباًہر جگہ پوچھاجاتاہے اور پھر دوسرے لوگوں کے سامنے اس کا پرچار بھی کیا جاتاہے۔اگرآمدن توقع سے زائد ہو تو ہر بندہ کہتاہے کہ’’ وہ تونوٹ پہ نوٹ چھاپ رہاہے۔‘‘ اور اگر آمدن کم ہو توپھر بھی اس بندے کی جان نہیں چھوٹتی اور اس کے بارے میںیہی تبصرہ ہوتاہے کہ ’’کولہو کا بیل بن کر بھی مہینے میںچند ہزارہی کماتاہے‘‘۔ہمیں اس بات کا احساس رکھناچاہیے کہ ہر شخص کی اپنی زندگی ہے ، اپنے مسائل ہیں اور وہ اپنی استطاعت کے مطابق زور لگاکر اپنے لیے پیسے کماتاہے ۔ ایسے میں اس کی اجازت کے بغیر اس کی ’’فائنانشل بائونڈری‘‘ میں گھسنااخلاقیات کے منافی ہے۔ہمیں اس رویے کوچھوڑناچاہیے۔


اس کے ساتھ ساتھ ایک بائونڈری اور بھی ہے جس کو ’’ٹائم اینڈانرجی بائونڈری‘‘ کہاجاتاہے۔اس میں آپ کے پاس اختیار ہوتاہے کہ آپ اپنے وقت اور توانائی کو کہاں اورکیسے استعمال کرناچاہیں ، کریں۔یہ دونوں چیزیں اللہ نے آپ کو عطا کی ہیں، جس کے بارے میں آپ ہی سے جواب دہی کی جائے گی اور یہی وجہ ہے کہ ان دونوں کے استعمال کا اختیار بھی صرف آپ ہی کے پاس ہے۔لہٰذا اگر کوئی شخص آپ کے وقت اور انرجی کو اپنی مرضی سے چلاناچاہتاہے تووہ آپ کی ’’ٹائم اینڈانرجی بائونڈری‘‘ کی خلاف ورزی کررہاہے ،جس کوروکنا آپ کا حق ہے۔


ہر وہ شخص جواپنی زندگی میں ذاتی حدود کوواضح انداز میں متعین کرلے وہ زیادہ پرسکون ہوتا ہے۔میں نے ان رشتوں کو تادیر اچھا چلتے دیکھاہے جس میں حدود لگی ہوئی ہوں اور ہر شخص دوسرے کی حدود کا خیال رکھتا ہو، لیکن اگر حدود کمزور ہوںتو پھر یہ بہت سارے مسائل کاباعث بن سکتی ہے۔


سب سے پہلے یہ چیز آپ کی ذات پر اثرانداز ہوتی ہے۔کوئی بھی شخص کسی بھی وقت آ پ کی حدود میں گھس کر آپ کو فزیکلی یا ایموشنلی ڈسٹرب کر سکتاہے۔جس سے آپ ذہنی طورپر پریشان ہوجائیں گے ، آپ جس ذہنی بہائو میں چل رہے ہوتے ہیں وہ ٹوٹ جاتاہے جو آپ کوچڑچڑابنادیتاہے ، آپ کے اوپراسٹریس سوار ہوجاتا ہے اور اگلے کئی گھنٹے آپ کے اسی اذیت میں گزرسکتے ہیں جس سے یقینی طورپر آپ کے معمولات زندگی خراب ہوں گے ۔


دوسرے نمبر پر یہ چیز آپ کے رشتوں کومتاثر کرتی ہے۔اگر آ پ نے رشتوں میں اپنی حدود مضبوط نہ رکھی ہوئی ہوں تو عین ممکن ہے کہ آپ کاکوئی دوست یارشتہ دار ایسی حرکت کردے جس کی وجہ سے آپ کو اس پر غصہ آجائے گا، اس کے ساتھ بحث بھی ہوسکتی ہے ،لڑائی جھگڑابھی ہوسکتاہے اور یوں ایک اچھا بھلا رشتہ ٹوٹ جاتاہے۔


ہم چوں کہ اجتماعیت والے معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں اور یہاں ایک اچھا انسان اسی کو تصورکیاجاتاہے جو اپنے خاندان، قبیلے اور قوم سے جڑاہوا ہوتواس وجہ سے ہمارے معاشرے میں ’انفرادیت‘ کوزیادہ اہمیت نہیں دی جاتی اور اگر کوئی شخص اپنے لیے سوچتا ہے تو اس کو خودغرض تصور کیاجاتاہے،حالانکہ جس طرح قوم قبیلے سے جڑنا ضروری ہے اسی طرح اپنے بارے میں سوچنا بھی ضروری ہے، اس کو خودغرضی کہنا مناسب نہیں ، کیوں کہ انسان پر سب سے پہلا حق اس کی اپنی جان کا ہے اور یہی چیز اس کو اجازت دیتی ہے کہ وہ اپنے بارے میں سوچے ، اپنافیصلہ خود کرے اور اپنی حدودبھی متعین کرے۔


ایک عقل مند انسان جب بھی اپنے بارے میں سوچتاہے تو سب سے پہلے اپنی زندگی کا مقصد ڈھونڈتاہے۔وہ اپنے لیے کچھ اہداف مقرر کرتاہے اوران تک پہنچنے کی کوشش کرتاہے۔اس منصوبہ بندی میں اتنی طاقت ہوتی ہے کہ پھراس کو معمولی چیزیں اپنی طرف متوجہ نہیں کرتیں اور نہ ہی کوئی بھی شخص اس کی زندگی میں دخل دے سکتاہے۔وہ مکمل توجہ کے ساتھ اپنی منزل کی طرف بڑھتاہے لیکن جس انسان کی زندگی میں مقصدیت نہ ہو تو اس کی حدود بھی ڈیفائن نہیں ہوتی اور اسی وجہ سے کوئی بھی شخص کسی بھی وقت اس کی فزیکل یا ایموشنل بائونڈریز کو توڑدیتا ہے اور اس کو ذہنی اذیت میں مبتلا کردیتاہے۔


لہٰذا پہلے اپنی زندگی کو بامقصد بنائیے، اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی ذاتی حدود کو بھی اچھی طرح متعین کرکے مضبوط کیجیے۔آپ دوسروں کی حدود کاخیال رکھیے اور کسی دوسرے کو اپنی حدود میں گھسنے مت دیجیے۔۔۔ میٹھے الفاظ کے ساتھ انھیں سمجھائیے۔اس سے نہ صرف آپ کی زندگی پرسکون ہوگی بلکہ آپ کے رشتے بھی پائیدار بن جائیں گے۔

Comments